امت میں شرک نہیں آ سکتا

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
کچھ لوگوں کو قرآن سے شرک کی تعریف نہیں ملتی۔ تو کچھ یہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں شرک ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جب ثبوت کے طور پر قرآنی آیات پیش کی جاتی ہیں کہ بھائی جب اس امت میں شرک ہونا ہی نہیں تھا تو قرآن کی اتنی ساری آیات شرک کی مذمّت میں کیوں اتریں؟ تو ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ اتنی ساری آیات اتری ہیں اسی لئے تو شرک کا وجود نہیں ہے! بڑی عجیب بات ہے کہ نماز کے تعلق سے بھی بہت آیات اتریں لیکن بے نمازیوں کا وجود ختم نہ ہو سکا۔ گویا قرآن کی آیات کا بے معنی ہونا (نعوذ باللہ) ثابت ہو جائے تو ان کی بلا سے، لیکن امت میں شرک کو ماننا نہیں! جبکہ یہی معترضین عیسائیوں ، ہندوؤں اور یہودیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ماننے کے باوجود ان کو مشرک بھی مانتے ہیں!
آیت کریمہ: ﴿ وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون ﴾ ... سورة یوسف کہ ��ان میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔�� کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ اس امت میں شرک نہیں ہو سکتا، تو پھر اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
میری ناقص رائے میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ گروہوں اور جماعتوں کو فوکس نہیں کرتیں، بلکہ ان میں حلال وحرام اور کیا چیز صحیح ہے اور کیا غلط کی بات ہوتی ہے۔ اگر ہم نصوص کا جائزہ لیں تو سزا یا جزا اور لعنت وملامت وغیرہ سب احکامات اچھے یا برے افعال پر لگائے گئے ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی تو فرمایا کہ ان کا نام لینے کی بجائے فرمایا:
﴿ إٍنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴾ ... سورة البقرة ١٥٩
کہ ��جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔��
تو گویا یہودیوں پر نہیں بلکہ ہر علم کو چھپانے والے پر لعنت کی گئی۔ اسی طرح دیگر مثالیں بھی دی جاسکتی ہے۔ نبی کریمﷺ بھی جب بعض لوگوں کی غلطی واضح کرنا چاہتے ان مخصوص لوگوں کو پوائنٹ آؤٹ کیے بغیر فرماتے: � ما بال أقوام يفعلون كذا وكذا � گویا اصل زور فعل شنیع پر ہوتا، نہ کہ کرنے والی جماعت پر، بلکہ اس جماعت یا ان لوگوں کی پردہ پوشی کی ہی ترغیب ہمیں دی گئی۔
بلکہ شریعت کی نصوص میں جب مؤمنین، منافقین یا کفار کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس سے کچھ مخصوص لوگ مراد نہیں ہوتے ہر ایمان لانے والا، ہر نفاق کا مظاہرہ کرنے والا، ہر انکار کرنے والا مراد ہوتا ہے۔ وگرنہ اگر اس طرح ہم نصوص کو مخصوص گرہوں پر چسپاں کرتے رہے تو پھر صحابہ کرام ﷢ کے بعد آنے والے لوگوں کیلئے ایک لحاظ سے تمام شریعت کالعدم ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر شخص یہی دعویٰ کرے گا کہ یہ آیت مبارکہ تو فلاں کافر یا منافق کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس کا اطلاق مجھ پر کیسے ہوسکتا ہے، اسی لئے علماء کے ہاں ایک قاعدہ بہت معروف ہے: (العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب) کہ ��اعتبار نص میں موجود لفظوں کی عمومیت کا ہوتا ہے، نہ کہ کسی مخصوص واقعہ کا (جس کی سبب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔)�� یعنی اگر قرآن کریم میں چوری کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے تو نبی کریمﷺ کے دور میں پیش آنے والے واقعات پر چوری کی سزا آسمان سے نازل ہوئی۔ تو کیا آج کسی کو چوری کی سزا نہیں دی جا سکتی؟ اس بناء پر کہ یہ آیات تو صرف فلاں فلاں چور کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ سورۃ المجادلہ میں موجود ظہار کا حکم سیدنا اوس بن صامت﷜ اور ان کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے متعلق نازل ہوا تھا۔ کیا اس حکم کو صرف انہی کے ساتھ خاص کر کے آئندہ کیلئے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا جائے؟؟؟ زنا کی سزا مخصوص لوگوں کیلئے نازل ہوئی تھی، کیا آج اس کا اطلاق نہیں ہوگا؟؟؟ اس طرح تو شریعت بازیچۂ اطفال بن جائے گی۔
تو یہ ایک شیطانی چال اور وسوسہ ہے کہ وہ تمام آیات جو کفار ومشرکین کے متعلّق نازل ہوئیں وہ انہی کے ساتھ خاص ہیں، ان کا آج کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا سوال ہے ان لوگوں سے کہ فرمانات نبویﷺ: �من حلف بغير الله فقد أشرك�، �من علق تميمة فقد أشرك�، �بين العبد و بين الكفر و الإيمان الصلاة ، فإذا تركها فقد أشرك�، �من ردته الطيرة عن حاجته ، فقد أشرك�، �أيما عبد أبق من مواليه فقد كفر حتى يرجع إليهم�، �من أتى حائضا ، أو امرأة في دبرها ، أو كاهنا فصدقه ؛ فقد كفر بما أنزل على محمد�، �من أعطي عطاء فوجد فليجز به ، ومن لم يجد فليثن ، فإن من أثنى فقد شكر ، ومن كتم فقد كفر ، ومن تحلى بما لم يعطه كان كلابس ثوبي زور�، �من أتى النساء في أعجازهن ؛ فقد كفر�، �من ادعى لغير أبيه وهو يعلم فقد كفر ، ومن ادعى قوما ليس هو منهم فليتبوأ مقعده من النار ، ومن دعا رجلا بالكفر ، أو قال : عدو الله ، وليس كذلك إلا حارت عليه �، �إذا قال للآخر : كافر ، فقد كفر أحدهما ، إن كان الذى قال له كافرا ؛ فقد صدق ؛ وإن لم يكن كما قال له فقد باء الذى قال له بالكفر� وغیرہ وغیرہ ان کفر وشرک کے احکامات کو کیا صرف نبی کریمﷺ کے دور کے کفار ومشرکین پر لاگو کیا جائے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
واضح رہے کہ جاويد احمد غامدی صاحب کا طریقہ واردات بھی یہی ہے، وہ جہاد کو بنی اسمٰعیل کے ساتھ، پردہ کو صرف امہات المؤمنین کے ساتھ اور دیگر کئی احکامات کو اسی دور کے ساتھ خاص کر کے ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو ایک انتہائی مذموم فعل ہے، اور یہی طریقہ کار غلام احمد پرویز کا بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کی حیثیت صرف اس دور کے ایک حکمران (مرکز ملت) کی تھی لہٰذا ان کی تمام تشریحات (احادیث مبارکہ) اس �دقیانوسی دَور� کے ساتھ خاص ہیں، تو جس طرح انہوں نے قرآن کی تشریح کی، اسی طرح آج کے حکمران خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، مرکز ملت کے طور جدید دَور کے مطابق (انگریزوں کے مطابق) قرآن پاک کی تفسیر (تحریف) کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللہ!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 
Top